Skip to main content

Posts

Showing posts from 2014

آزاد فلسطینی ریاست، اسرائیل اور عرب ممالک

اسرائیل کی حماس سے کوئی لڑائی نہیں اسرائیل کی لڑائی ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے ہے، جنگ بندی کے اعلان کے باوجود معصوم جانوں کو درندگی سے قتل کرنے والی یہ امریکہ نواز تسلطی قوم اب تک 549 بچوں سمیت2048 افراد کو شہد کر چکی ہے، ہم بہت زیادہ تاریخی مباحثوں میں الجھنے کی بجائے اگر پچھلے چند سالوں کے واقعات پر نظر ڈالیں تو ہمیں اسرائیل اور فلسطینی ریاست کے قیام کی اس لڑائی میں عرب لیگ کی کم ہوتی حمایت واضح پتہ لگے گئی، فلسطین کی رایاست کا قیام  سب سے پہلے تو اسرائیل کے لیے ہی کبھی بھی قابل قبول نہیں رہا کیونکہ یہ صہیونی ریاست کے خواب کو چکنا چور کر دے گا اور فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز قبضے کی کوششوں کو بھی سبوتاژ کرے گا لیکن اس سارے واقعات میں عرب اور مسلم ممالک کا کردار بھی اپنے مفادات کے گر دگھومتا ہے۔ کلونیل راج میں قابض ملک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مقامی لوگوں کو جتنا کمزور رکھ سکتا ہو وہ رکھتا ہے یہی پالیسی اسرائیل کی فلسطین بارے ہے،اسرائیل فلسطینوں کی زمین پر قبضہ کرنا، ان کی سرحدوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا،  غزہ کو جیل جیسی شکل دیکر فلسطینیوں کو اس میں قید کرنا اور ان پ

ہوا کسی کی نہیں ! (محمد شاہد عمران)

میں نے حتی المقدور کوشش کی کہ خود کو سیاسی تجزیوں اور مباحثوں سے دور رکھوں اور اپنی تحریروں کو عوام کے تعلیم، صحت اور غربت جیسے اہم ترین موضوعات تک رکھوں لیکن لاہور ماڈل ٹاؤن میں ہونے وال اندوہناک واقعہ نے مجھے متفرقات پر لکھنے پہ مجبور کر دیا۔ انتہائی ظلم ہوا اس میں کوئی دو رائے نہیں ، خواتین سمیت بارہ جانیں ضائع ہوئیں، بزرگوں ، خواتین پر تشدد کیا گیا، اس کے بعد وزیراعلی نے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا حکم دیدیا اور پولیس کی مدعیت میں مقدمہ بھی درج ہو گیا۔ ان واقعات نے ہمارے انصاف کے معیارات   کی ایک دفعہ پھر واضح تصویر پیش کی ہے ، جوڈیشل کمیشن کون قائم کر رہا ہے جس پر اس ظلم کا حکمنامہ جاری کرنے کا الزام ہے اگرچہ وزیراعلی شہباز شریف نے اس واقعہ سے لا علمی کا اظہار کیا ہے لیکن چونکہ عوامی تحریک کے کارکن متاثرین میں شامل ہیں   اس لیے کمیشن پر ان کے تحفظات کو سنجیدہ لینا چاہئیے،   اور دوسرا انصاف   پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے کر دیا گیا مطلب جس پولیس نے ظلم ڈھایا ، لاشیں گرائیں،   وہ مظلوم بن کہ خود ہی مدعی بن گئی اور   آئی جی صاحب نے یہ بھی فرما دیا کہ اس کے علاوہ دوسرا مقدمہ

ماحولیاتی تبدیلیاں اور ترقی پذیر ممالک (محمد شاہد عمران)

ماحولیاتی تبدیلیوں کی حالیہ صورت حال سے دنیا کے تمام ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے اور تقریبآ تمام ممالک ہی اس کے حل کے لیے کوششوں کو تیز کرنے پر زور دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی عملی طور پر کسی موثر اقدام سے بھی گریزاں ہیں ان تبدیلیوں کے اثرات ترقی پذیر ممالک میں خطرناک حد تک محسوس کیے جا سکتے ہیں باوجودیکہ یہ ممالک اس کی سب سے کم وجہ بنتے ہیں۔ عالمی قوتوں اور ترقی یافتہ اقوام کو نہ صرف ان تبدیلیوں کے مضر اثرات کو پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیئے بلکہ ان سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فنی اور مالی امداد بھی کرنی چاہیئے۔  صنعتی ترقی اور نت نئی ٹیکنالوجی کتنی ہی ضروری سہی لیکن یہ اس صورت میں قابل قبول نہیں کہ زمین انسانوں کے رہنے کہ قابل ہی نہ رہے۔پچھلے دنوں جاپان کے شہر یوکوہاما میں دنیا کے سائنسدان ماحولیاتی تبدیلی کے ممکنہ خطرات کو جانچنے کے لیے جمع ہوئے۔جس میں سمندر کے لیول کے سال 2100  تک تین فٹ تک اضافے کا خد شہ ظاہر کیا گیا جو کہ زمینی درجہ حرارت میں حالیہ اضافے کی بدولت ہوگا اس کا مطلب ترقی پذیر ممالک کے غریب عوام کے لیے اس کے سوا کچھ نہیں ہوگا، کہ ایک سائکلون یا دوسرا طوفان ا

پولیو! نئے خطرات (محمد شاہد عمران)

کچھ سال پہلے پاکستان، نائجریا اور افغانستان یقینا دنیا کے ان چند ممالک میں سے تھے جہاں ابھی بھی پولیو کی بیماری موجود تھی اور ان ممالک کے محدود وسائل، جغرافیائی حالات اور عالمی کوششوں میں کمی کی وجہ سے ہر سال پولیو کیسز نمودار ہو رہے تھے۔ لیکن 2008 سے لیکر اب تک کے اعداد و شمار نے ساری دنیا کو مخمصے میں ڈال دیا ہے کیونکہ اس دورانیہ میں دنیا کے بیس ممالک میں یہ بیماری پھر سے سر اٹھاتی نظر آئی ہے۔یقینا یہ وائرس مذکورہ تین ممالک سے ہی منتقل ہوا ہے جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ اگر عالمی سطح پران ممالک میں پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو تیز نہ کیا گیا تو ساری دنیا پھر سے اس وبائی مرض کا شکار ہو جائے گی۔   1988 کے گلوبل پولیو اریدیکیشن انشیٹو کے بعد ایک سو پچیس ممالک میں پھیلی اس بیماری پر 99 فیصد قابو پا لیا گیا تھا۔ اس وبائی مرض سے سالانہ 3 لاکھ پچاس ہزار بچے معذوری کا شکار ہوتے تھے۔جن کی تعداد بعد میں کم ہو کر دس بیس کیسز تک محدود ہوگئی تھی،لیکن پھر مہذب دنیا نے خود کو محفوظ سمجھ کر دوسرے ملکوں میں جاری ویکسینشن اور اس دوران آنے والی مشکلات سے قطعہ تعلقی دکھانا شروع کر دی۔ اعداد و