کچھ سال پہلے
پاکستان، نائجریا اور افغانستان یقینا دنیا کے ان چند ممالک میں سے تھے جہاں ابھی
بھی پولیو کی بیماری موجود تھی اور ان ممالک کے محدود وسائل، جغرافیائی حالات اور
عالمی کوششوں میں کمی کی وجہ سے ہر سال پولیو کیسز نمودار ہو رہے تھے۔ لیکن 2008
سے لیکر اب تک کے اعداد و شمار نے ساری دنیا کو مخمصے میں ڈال دیا ہے کیونکہ اس
دورانیہ میں دنیا کے بیس ممالک میں یہ بیماری پھر سے سر اٹھاتی نظر آئی ہے۔یقینا
یہ وائرس مذکورہ تین ممالک سے ہی منتقل ہوا ہے جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ اگر
عالمی سطح پران ممالک میں پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو تیز نہ کیا گیا تو ساری
دنیا پھر سے اس وبائی مرض کا شکار ہو جائے گی۔
1988 کے گلوبل پولیو اریدیکیشن انشیٹو کے بعد
ایک سو پچیس ممالک میں پھیلی اس بیماری پر 99 فیصد قابو پا لیا گیا تھا۔ اس وبائی
مرض سے سالانہ 3 لاکھ پچاس ہزار بچے معذوری کا شکار ہوتے تھے۔جن کی تعداد بعد میں
کم ہو کر دس بیس کیسز تک محدود ہوگئی تھی،لیکن پھر مہذب دنیا نے خود کو محفوظ سمجھ
کر دوسرے ملکوں میں جاری ویکسینشن اور اس دوران آنے والی مشکلات سے قطعہ تعلقی
دکھانا شروع کر دی۔ اعداد و شمار کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دوسرے بہت
سے عناصر کے ساتھ ساتھ فنڈنگ اور عالمی دلچسپی میں کمی پولیو کے خاتمے میں ایک بڑی
روکاوٹ رہے ہیں۔
پولیو یقینی
طور پر ایک لا علاج مرض ہے جس پر صرف مناسب وقت پہ ویکسینیشن سے قابو پایا جا سکتا
ہے۔ دوسری بہت سی بیماریوں کی طرح پولیو بھی پانچ سال سے کم عمر بچوں میں نسبتا
زیادہ نمودار ہوتا ہے کیونکہ اس وقت ان کا معدافعتی نظام اس کے لیے تیار نہیں
ہوتا۔ صرف انسانوں کو متاثر کرنے والے اس
وائرس کے خاتمے کا واحد حل مناسب عمر میں ویکسینیشن ہے اور ماہرین کے مطابق اگر اس
ویکسینیشن کو متاثرہ علاقوں میں جاری رکھا جائے تو یہ اس پولیو کے پھلاؤ کو روکتے
ہوئے آہستہ آہستہ اسے مکمل طور پر ختم کر دیتی ہے۔
مذہبی و
معاشرتی رکاوٹوں کے ساتھ ساتھ اس مہنگی
ترین ویکسین کو بڑے لیول پر اور زیادہ دیر تک چلانا کسی بھی حکومت کے لیے انتہائی
مشکل کام ہے۔ غیر ملکی امداد کے باوجود پولیو مہم کم فنڈنگ کی وجہ سے متاثر ہوتی آئی ہے۔ اقوام
متحدہ کے ذیلی اداروں یونیسف، عالمی تنظیم برائے صحت اور دوسری عالمی اداروں
آئی۔ڈی۔بی، بل اینڈ ملینڈا آرگنائزیشن اور اب حکومت جاپان کی طرف سے بھی اس وبائی
مرض کے خاتمے کے لیے پاکستان کی مدد کی جا رہی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ اسمبلی نے بھی پولیو
کو ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ممبر ممالک سے تعاون کی درخواست کی ہے۔
1994 کی پہلی پولیو مہم کے بعد پاکستان نے اس پر
قابو پانے کی بھرپور کوشش کی اور پولیو کے کیسز 40،000 سالانہ سے صرف 28 رہ گئے لیکن
گزشتہ چند سالوں کی دہشت گردی اور امن عامہ کی خراب صورتحال نے مجموعی طور پر
پولیو کے لیے کی جانے والی بارہ سالہ جدوجہد پر پانی پھیر دیا اور 2010 میں 144 اور 2011 میں 198 کسیز سامنے آئے
2012 مین حکومت پاکستان اور عالمی تنظیموں کی کوششوں سے اس میں 71 فیصد کمی لے آئی
گئی۔ لیکن 2014 میں اب تک تیس سے زیادہ کیسز سامنے آچکے ہیں۔ان میں سے 23 کیسز میں
بچوں کو ایک بھی دفعہ پولیو ویکسین نہیں دی گئی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ
یہ واقعات زیادہ تر سندھ میں کراچی اور خیبر پختونخوا میں پشاور میں نمودار ہوئے
ہیں جس سے ان علاقوں میں پولیو ویکسینیشن کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
پاکستان
کی آدھی آبادی کو نکاسی آب کی بنیادی سہولت میسر نہیں اور پولیو وائرس کے پھیلنے
کا ایک ذریعہ یہی چیز بن رہی ہے۔ کراچی کے بلوچستان سے ملحقہ اور خیبرپختونخوا کے
افغانستان سے ملتے اضلاع میں صورتحال بہت گھمبیر ہے۔ انتہائی تشویش والے علاقوں
میں خیبر پختونخوا کے بہت سے شہر شامل ہیں جن میں پشاور سر فہرست ہے ماضی میں
پشاور سے لیے گئے پانی کے ہر نمونے میں پولیو وائیرس پایا گیا۔صحت کا انصاف مہم
خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کا ایک احسن عمل ہے جس میں ڈونر ایجنسیوں
کے ساتھ مل کر پولیو ورکرز کی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے پولیو سے بچاؤ کے قطرے
پلائے گئے۔ سکیورٹی خدشات کی بدولت بہت سے علاقوں میں مہم روکنی پڑی اور بہت سے
بچے ویکسین سے محروم بھی رہ گئے لیکن مجموعی طور پر یہ مہم خیبرپختونخوا میں اب تک
کی کامیاب ترین پولیو مہم تھی
پولیو کی
ویکسین کی مخالفت کرنے والوں کا ماننا ہے کہ اس میں سور کا خون اورالکوحل پائی
جاتی ہے اور کچھ مفروضہ سازوں نے اسے خاندانی منصوبہ بندی کے لیے مغربی سازش قرار
دیا ہے جبکہ پاکستان کی ریسرچ لیبارٹریز اور پی سی آر کا ادارہ اپنی تحقیق میں یہ
واضح کر چکا ہے کہ پولیو کی ویکسین میں ایسی کوئی چیز شامل نہیں جو مذہبی لحاظ سے
ممنوع ہو۔اور یہ جنسی صلاحیتوں پر بھی کسی قسم کے مضر اثرات سے مبرا ہے۔ ڈاکٹر
شکیل آفریدی کی اسامہ کی گرفتاری کے لیے کی جانے والی ہییپاٹئٹس کی مہم کو بھی
پولیو مہم کا نام دے دیا گیاجس نے
پولیومہم کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس سے شر انگیزوں کو پولیو کے خلاف بولنے
کا موقع مل گیا اور انہون نے اسے پاکستانی بچوں کو مارنے کی مغربی منصوبہ بندی
قرار دے دیا۔
ان شر
پسندوں کے اس پروپیگنڈہ کی وجہ سے نہ صرف دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں بلکہ ہمارے
بڑے شہروں کے پوش علاقوں میں بھی بعض لوگوں نے اپنے بچوں کو پولیو کی ویکسین لینے
سے روک دیا، اس سلسلے میں سابق صدر آصف زرداری کی جانب سے نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان کی صورت نئی حکمت
عملی واضح کی۔ تاکہ ان معاشرتی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے پولیو کی مہم جاری رکھی
جائے جس سے خاطر خواہ نتائج برامد ہوئے لیکن ان کوششوں کے باوجود بھی پولیو ورکرز
دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہے اور اس سلسلے میں کی جانے والی ہر کوشش ادھوری ہی
رہی۔
پچھلے
بیس ماہ میں پچاس سے زیادہ پولیو ورکرز اور سکیورٹی اہلکار ویکسینیشن کی مہم کے
دوران شہید ہوئے بہت سے پولیو ورکرز خوفزدہ ہیں کوئی بھی اڑھائی سو روپے کے عوض
اپنی جان گنوانا نہیں چاہتا۔ ایسے بہت سے پولیو ورکرز بھی موجود ہیں جو تنخواہ نہ
ملنے کے باوجود انسانیت کے جزبہ سے سرشار فیلڈ میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ان سے اس
بارے پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ ہمیں ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل عزیز ہے، لیکن
غربت سب جزبوں کو ختم کردیتی ہے اور جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ انکی کوئی ساتھی کل
دوسرے محلے میں گولیوں سے چھلنی کر دی گئی تب ان کو اپنے بچوں اور گھر والوں کا
خیال بھی کرنا پڑتا ہے۔ حالات بہت خراب سہی لیکن یہ کام بہرحال آج کرنا ہے ورنہ کل
ہمارے ہی بچے اسے بھگتیں گے۔
پالیسی سازوں کو چاہئے کہ پولیو مہم میں مزید
ورکرز کی جانیں گنوانے سے پہلے یا تو ان کی سکیورٹی فول پروف بنائے یا پھر کوئی
اور لائحہ عمل اختیار کیا جائے جن میں کسی کی جان جانے کا خطرہ نہ ہو۔اس سلسلے میں
بہت سے طریقے اپنائے جا سکتے ہیں ہر علاقے کے رکن قومی و صوبائی اسمبلی کو اپنے
حلقہ میں پولیو کی مہم کو کامیاب بنانے کا ذمہ دیا جائے اس کے لیے وہ اپنے سیاسی
کارکنوں کو سکیورٹی اور لوگوں کی رائے بدلنے کے لیے استعمال کرے جیسا کہ الیکشن
میں کیا جاتاہے۔ اس کے علاوہ سکول میں بچوں کے اندراج اور بچوں کی پیدائش کے
اندراج کو بھی پولیو کی ویکسین حاصل کرنے سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔
اس کے
علاوہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاست دانوں اور کم علم والے مذہبی راہنماؤں کو
پولیو کے بارے پروپگنڈہ پر مبنی بیان بازی سے روکے۔ ان کے نزدیک مغرب یقینا ہمارا
دشمن ہے جو پولیو کی ویکسین ہمیں دے رہا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم خود اپنی
ریسرچ آلو اور گائے کی کھال پر اللہ کا نام دھونڈنے تک محدود رکھے ہوئے ہیں، ہم
روز جو بھی دوائیاں کھاتے ہیں اور جتنے بھی طریقہ کار سے علاج کراتے ہیں یہ سب
مغرب کی ایجاد ہیں کیونکہ ہم نے قرآن میں بارہا تحقیق کے حکم کے باوجود تحقیق کرنا
گوارہ نہیں کی بلکہ تحقیق کرنے والوں پر کفر کا ایجنٹ ہونے کے فتوے لگائے، ہمارے
گھروں میں لگے بجلی کے قمقمے، پنکھے، پانی والی موٹریں سب مغرب نے ایجاد کیے
کیونکہ ہم تب اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر کفر کے فتوے لگا رہے تھے۔ جو لوگ اپنی
بیان بازی اور شر انگیزی کے لیے مزہب کو استعمال کرتے ہیں پولیو کے حوالے سے یہ
بات بھی ان لوگوں کو سمجھ لینی چاہیئے کہ اب تو اس ویکسین کے بنا آپ حج پر بھی
نہیں جا سکتے کیونکہ اب اس سے پہلے ویکسین پینا ضروری ہے۔
انڈیا سمیت
بہت سے ممالک نے ویکسینیشن کے بنا پاکستانیوں کی انٹری پر پابندی لگا دی ہے، مصر
اور کچھ دوسرے ممالک میں منتقل شدہ وائرس کے نمونے پاکستان میں پائے جانے والے
وائرس سے ملتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ پاکستان اب اس وائرس کے دوسرے ملکوں میں
انتقال کی بھی وجہ بن رہا ہے۔یہ امر پاکستان سے زیادہ دوسرے ممالک کے لیے قابل غور
ہونا چاہئے کہ اگر مناسب فنڈنگ اور دلچسپی سے اگر اس وائرس کو ختم نہ کیا گیا تو
یہ ساری دنیا میں دوبارہ سے پھیل کر تباہی مچا دیگا۔
Comments
Post a Comment