Skip to main content

ہوا کسی کی نہیں ! (محمد شاہد عمران)




میں نے حتی المقدور کوشش کی کہ خود کو سیاسی تجزیوں اور مباحثوں سے دور رکھوں اور اپنی تحریروں کو عوام کے تعلیم، صحت اور غربت جیسے اہم ترین موضوعات تک رکھوں لیکن لاہور ماڈل ٹاؤن میں ہونے وال اندوہناک واقعہ نے مجھے متفرقات پر لکھنے پہ مجبور کر دیا۔
انتہائی ظلم ہوا اس میں کوئی دو رائے نہیں ، خواتین سمیت بارہ جانیں ضائع ہوئیں، بزرگوں ، خواتین پر تشدد کیا گیا، اس کے بعد وزیراعلی نے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا حکم دیدیا اور پولیس کی مدعیت میں مقدمہ بھی درج ہو گیا۔ ان واقعات نے ہمارے انصاف کے معیارات  کی ایک دفعہ پھر واضح تصویر پیش کی ہے ، جوڈیشل کمیشن کون قائم کر رہا ہے جس پر اس ظلم کا حکمنامہ جاری کرنے کا الزام ہے اگرچہ وزیراعلی شہباز شریف نے اس واقعہ سے لا علمی کا اظہار کیا ہے لیکن چونکہ عوامی تحریک کے کارکن متاثرین میں شامل ہیں  اس لیے کمیشن پر ان کے تحفظات کو سنجیدہ لینا چاہئیے،  اور دوسرا انصاف  پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے کر دیا گیا مطلب جس پولیس نے ظلم ڈھایا ، لاشیں گرائیں،  وہ مظلوم بن کہ خود ہی مدعی بن گئی اور  آئی جی صاحب نے یہ بھی فرما دیا کہ اس کے علاوہ دوسرا مقدمہ درج نہیں ہو گا، اور اس مقدمے میں ان لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے جنہوں نے ڈنڈے کھائے ، سڑکوں پہ گھسیٹے گئے اور زخمی حالت میں گرفتار ہوئے،
اگر  طاہر القادری کے نظریات سے اختلافات کو ایک طرف رکھ دیا جائے اور بلکل غیر جانبدار ہو کر سوچا جائے تو کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں کہ صرف  رکاوٹیں دور کرنے کے خلاف احتجاج پر بارہ لاشیں گرا دی گئی اب تک ساری باتیں سامنے آچکی جن میٹنگز میں اس غنڈہ گردی کا حکم دیا گیا، جو لوگ اس میں ملوث وہ سب عوام کے سامنے ہیں لیکن انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ن لیگ کے ووٹرز اس گرے ہوئے انداز سے اس سارے معاملے کا سوشل میڈیا پر دفاع کر رہے ہیں جو کم از کم ایک انسان کے شایان شان تو ہرگز بھی نہیں ، مطلب کوئی سیاسی پارٹی آپ کو انسانی جانوں سے بھی عزیز ہو گئی ، خدارا انسانی حقوق اور انصاف کے معاملات میں تو مظلوم کا ساتھ دینے کا اسلام نے بھی حکم دیا ہے لیکن کیا کہا جا سکتا اس معاشرے کو جہاں لوگ چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے عوض اپنا ووٹ بیچ دیتے ہیں اور اگر وہ نہ بیچیں تو ان کی طرف سے خود ہی ووٹ ڈال لیا جاتا ہے مطلب انکی چپ کو بھی ہاں سمجھ لیا جاتا ہے،
اس سارے بگاڑ کا ذمہ عدلیہ پہ ڈالنا چاہیئے جہاں کمیشن بھی بنتے ہیں ، ثبوت بھی اکٹھے ہوتے ہیں لیکن مجرم پھر اپنی کرسیوں پہ براجمان رہتے ہیں ، ایسے کتنے کمیشن عدالتوں کے ریکارڈ رومز میں پڑے ہوئے ایوان عدل پہ پولیس کے دھاوا بولنے میں شہباز شریف مجرم نامزد ہوئے، لیکن یہ عدالتی نظام کسی صورت پہ حکمرانوں کے احتساب کے لیے بنایا ہی نہیں گیا، گیلانی ہو، زرداری ہو، مشرف ہو یا شہباز شریف کسی پہ بھی ہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں کر سکتی عدالتیں ان کے کیس تیس تیس سال چلتے ہیں یہ جج تک کو تبدیل کرا دیتے ہیں اور ملک و قوم کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ لینے والے جج ان کو بری الذمہ قرار دے دیتے ہیں لیکن خبردار آپ ان سے سوال بھی نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
کسی شاعر نے لکھا ہے کہ " یہ جو فرعون بنے پھر آج کئی
                                  ان کو شاید موسیؐ کا خدا یاد نہیں"
اللہ کے قہر سے ڈرنا چاہیے اگر اللہ نے اقتدار دیا ہے تو اس کو اللہ کی امانت سمجھو ہو سکتا ہے کل جن کے ہاتھوں میں اقتدار آئے وہ آپ کے سڑکوں پہ گھسیٹنے والے وعدوں کو آپ پر سچ کر دکھائے،اور بقول عدیل زیدی چراغ کسی کا بھی بجھ سکتا ہے ہوا کسی کی نہیں ، آج آپ لوگوں کی ماؤں ، بہنوں بزرگوں کو ذلیل کر رہے ہو تو کل آپ کے گھر والوں کی باری بھی آسکتی ہے اور یقین کریں ان لوگوں نے ماضی سے بھی کچھ نہیں سیکھا ، سیکٹریٹ سے میرا ایک دوست بتا رہا تھا کہ مشرف دور میں کلثوم نواز کی گاڑی کو پانچ گھنٹے کرین نے اٹھائے رکھا جب وہ احتجاج کر رہی تھیں ، یقیناَ یہ عمل قابل مذمت تھا لیکن کیا ایسے ہی طریقوں کو دوبارہ استعمال کرنا آمرانہ سوچ کی غمازی نہیں کرتا ۔
اور آخر میں اب ان لوگوں سے میں کیا کہوں جو رانا ثناء اللہ جیسے لوگوں کو ووٹ دیکر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں  ان کا اسمبلی  آنا ویسے بھی یقینی ہوتا ہے کیوں کہ پورا پورا پولنگ کا عملہ یہ خرید لیتے ہیں بادشاہ لوگ ہیں ان کو کون روک  سکتا اسمبلیوں میں آنے سے اور پولیس کو ان لوگوں نے ایسے رکھا ہوا جیسے گھر کا ملازم ہو آپ یقین کرو صاحب کے بچوں کو سکول چھوڑنے سے سبزی کی خریداری تک پولیس کے جوانوں سے کراتے ہیں اور پھر جب ایسی تربیت یافتہ پولیس کو نہتے لوگوں پہ گولیاں چلانے کا حکم دیا جائے تو انکار کیونکر ممکن؟
 لیکن! شاہ پرستوں سے عرض ہے کہ پاکستان کے نظام عدل، انتخابات اور حکمرانیوں کے اوپر بھی ایک نظام عدل اور حکمرانی قائم ہے جہاں نہ آپ جج خرید سکتے ہو نہ وکیل ، اور پورا بائیو میٹرک سسٹم ہے کوئی دھاندلی بھی نہیں کر سکو گے بس اس کے لیے خود کو تیار کر لو، پتہ نہیں ظالم اور اسکا ساتھ دینے والوں کو نیند کیسے اَتی ہے جب پتہ بھی ہو کہ اتنے بڑے عادل کے سامنے جانا ایک دن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

Role of today’s education in changing future of Pakistan

  How US became a super power dominating the former Soviet Union and eliminating the all ideologies other than capitalism, how France and neighbor countries survive the French Revolution’s aftermaths, how Industrial progress modernize the ignorant Europe, how China is taking over the world economy, how Japan survive after dreadful atomic bombing and finally how still more than half population of Pakistan is living under poverty line. Neutralizing all other intervening variables we will find one common variable seeding these all events is education. We met with desperate and astonishing figures while analyzing education condition in Pakistan, standing at 46% literacy rate with only 26% of which girls are literate as per ministry sources, however independent sources paint more horrible picture. We know without education a person can’t become doctor to provide medical aid to patients suffering from disease, one can’t become engineer to build roads, infrastructure, buildings, and education

سیاست، بریانی تے اسیی

  اج کل گرمی نے تس کڈی ہوئی اے، سمجھ نیہں لگدی اے آگ دا گولہ ساڈے اے کنے پئہ گیا اے،تایا  جیراماجے نائی کول بیندیاں ہویاں بولیا۔ رب سوہنے دی مرضی اے چاہے گرمی ہوئے یا سردی سدا کنے رہنا اج آگ ور رئی اے تے کل ککڑ پالا پوئے گا۔ ماجے نائی نے اک گاک دا خط کردیا آکھیا۔ سنیا کمہاراں دا رمضان الیکشن لڑن لگا اے، پڑھ لکھ کے وی ویکھو کیڑے کمے ٹر پیا۔ تایا جیڑا ہر ویلے دی طرح اج وی گل ودان چہ لگیا سی۔ بلدیاتی الیکشن نیڑے آرئے نے تے اگلے مہینے ووٹاں پیئن گیا۔ پھٹے تے بیٹھے امجو نے وی گل وچ اپنا حصہ پایا- جیتنا تے فیر چوھدری نے ای آ، اپنے کر دی سڑک پکی کرا لیئ تے پینڈ وچ آن والا رستہ فیر کچا دا کچا، سکول تے ہائی نیئں ہو سکیا پچھلے دس سالاں توں، ساڈی سوانیاں نوں دو پینڈ چل کے جانا پینڈا دسویں لئی۔ ماجا نائی بولیا۔ ڈاکٹر اے تے ڈاکٹری کرے، کسے غریب مریض دا علاج کرے، دعا لیوے، ایویں چوھدری بنن نوں ٹریا اے۔ تایا جیڑا گاک دے اٹھن توں بعد پھٹی تے بیندیا بولیا۔ تایا او دوائیاں والا ڈاکٹر نیئں، رمضان سیاسیات وچ پی ایچ ڈی کر کے آیا اے، امجو موچنے نال منہ دے اضافی وال کچھدیاں ہویاں بولیا۔ مرا منڈا وی میرے تے

What Tribune tells about Islamophobia