Skip to main content

تعلقات عامہ اور پاکستانی فوج

تعلقات عامہ نے حالیہ دور میں بہت ترقی کی ہے چیزیں اب دعا سلام، فیکس مشین، اور چند جرنلسٹ خریدنے سے آگے بڑھ چکی ہیں، سوشل میڈیا کے آغاز سے امیج بلڈنگ کا کام ایک ہی وقت میں آسان اور مشکل ہوتا گیا، آسان اس لیے کہ اب آپ اخبارات اور ٹی وی ایڈیٹروں کی پسند نہ پسند پر قناعت کرنے کی بجائے منٹوں میں وائرل ہونے والی خبریں خود لگا سکتے ہیں بس اسکے لیے سوشل میڈیا سائٹس کے الگوریدم اور سرچ انجن اپٹمائزیشن کا خاطر خواہ علم ہونا چاہئیے۔ 
لیکن ہمارے اداروں چاہے وہ پنجاب کا تعلقات عامہ ہو یا پاک فوج کا نے اپنی روش نہ بدلی، دونوں میں سب سے بڑی مماثلت یہ ہے کہ جو بھی امیج بلڈنگ کی جاتی ہے وہ ادارے کی بجائے ادارے کے سربراہ، اسکے منسٹر یا پھر سیکرٹری کے لیے کی جاتی ہے، دوران ملازمت مجھے اس بات پر بہت حیرت ہوتی کہ ادارے کو مقدم رکھنے کی بجائے ہم نے ایک فرد کو ادارہ بنایا ہوتا ہے، ہر چیز اس سے منسوب کی جاتی ہے اگر وہ کہیں وزٹ کرتا ہے تو آپکی قابلیت اس چیز سے معلوم ہوتی ہے کہ بطور پی آر او آپ کتنے چینلز پر ٹیکر چلوا پاتے ہیں اور اگر کوئی ادارے کی ایسی کامیابی ہے جس میں منسٹر صاحب کا دور دور تک کوئی ہاتھ نہیں تو اسکو اسطرح لکھا جاتا ہے کہ لگے ساری ہدایات جناب نے خود جاری کی ہیں ورنہ تو ادارہ اپنی نارمل فنکشننگ بھی سر انجام نہ دے پاتا۔ جیسے ہی منسٹر تبدیل ہوتا ہے تو اس ادارے کی طرف سے کی گئی غلطیاں اور کمی تو ادھر ہی رہ جاتی ہے لیکن ان غلطیوں کے ازالے کے لیے کی جانے والی پی آر اس منسٹر کے ساتھ چلی جاتی ہے اس لیے کوئی امیج بلڈنگ ادارے کو فائدہ دے ہی نہیں پاتی کیونکہ آپ نے وہ ایک فرد کے لیے کی ہوتی ہے
آئی ایس پی آر نے بھی اب فوج کے تین اداروں کی بجائے صرف سربراہ بری فوج کی پی آر کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے اس کا فوج کے سربراہ کو جو فائدہ ہو رہا وہ آپ نیچے دئے گئے ٹویٹر کے ٹاپ ٹرینڈ سے لگا سکتے ہیں لیکن ادارے کو جو نقصان ہو رہا وہ شاید سارا اس وقت ماپنا ممکن نہ ہو کیونکہ پی آر سالوں لگانے سے بنتی ایک مثبت سوچ ادارے کے بارے لوگوں کے ذہنوں میں لانے کے لیے ہزاروں ترانے اور سینکڑوں ڈرامے (کرنے) بنانے پڑتے لیکن ادھر آپ نے ادارہ کو درجہ دوم اور سربراہ کو درجہ اول کیا ادھر سارے ڈرامے فلاپ۔ 




ویسے میں نے اپنی حالیہ تحقیق سے ان مسائل کا حل نکالنے کی ایک عاجزنہ کوشش کی ہے اگر آئی ایس پی آر غصہ کیے بنا سننا چاہے تو میں دور دور سے حاضر ہوں کیونکہ حالیہ تعلقات عامہ سے اندازہ ہوا ہے کہ قریبی تعلق میں فوج کو کپڑے وغیرہ زیب تن کیے ہونا بلکل پسند نہیں

Comments

Popular posts from this blog

Role of today’s education in changing future of Pakistan

  How US became a super power dominating the former Soviet Union and eliminating the all ideologies other than capitalism, how France and neighbor countries survive the French Revolution’s aftermaths, how Industrial progress modernize the ignorant Europe, how China is taking over the world economy, how Japan survive after dreadful atomic bombing and finally how still more than half population of Pakistan is living under poverty line. Neutralizing all other intervening variables we will find one common variable seeding these all events is education. We met with desperate and astonishing figures while analyzing education condition in Pakistan, standing at 46% literacy rate with only 26% of which girls are literate as per ministry sources, however independent sources paint more horrible picture. We know without education a person can’t become doctor to provide medical aid to patients suffering from disease, one can’t become engineer to build roads, infrastructure, buildings, and educa...

سیاست، بریانی تے اسیی

  اج کل گرمی نے تس کڈی ہوئی اے، سمجھ نیہں لگدی اے آگ دا گولہ ساڈے اے کنے پئہ گیا اے،تایا  جیراماجے نائی کول بیندیاں ہویاں بولیا۔ رب سوہنے دی مرضی اے چاہے گرمی ہوئے یا سردی سدا کنے رہنا اج آگ ور رئی اے تے کل ککڑ پالا پوئے گا۔ ماجے نائی نے اک گاک دا خط کردیا آکھیا۔ سنیا کمہاراں دا رمضان الیکشن لڑن لگا اے، پڑھ لکھ کے وی ویکھو کیڑے کمے ٹر پیا۔ تایا جیڑا ہر ویلے دی طرح اج وی گل ودان چہ لگیا سی۔ بلدیاتی الیکشن نیڑے آرئے نے تے اگلے مہینے ووٹاں پیئن گیا۔ پھٹے تے بیٹھے امجو نے وی گل وچ اپنا حصہ پایا- جیتنا تے فیر چوھدری نے ای آ، اپنے کر دی سڑک پکی کرا لیئ تے پینڈ وچ آن والا رستہ فیر کچا دا کچا، سکول تے ہائی نیئں ہو سکیا پچھلے دس سالاں توں، ساڈی سوانیاں نوں دو پینڈ چل کے جانا پینڈا دسویں لئی۔ ماجا نائی بولیا۔ ڈاکٹر اے تے ڈاکٹری کرے، کسے غریب مریض دا علاج کرے، دعا لیوے، ایویں چوھدری بنن نوں ٹریا اے۔ تایا جیڑا گاک دے اٹھن توں بعد پھٹی تے بیندیا بولیا۔ تایا او دوائیاں والا ڈاکٹر نیئں، رمضان سیاسیات وچ پی ایچ ڈی کر کے آیا اے، امجو موچنے نال منہ دے اضافی وال کچھدیاں ہویاں بولیا۔ مرا منڈا وی...

سیلاب ، طاقت اور تباہی

سیلاب سے متعلق بہت سی سیاسی اور جذباتی باتیں سوشل میڈیا پر سننے اور دیکھنے کو ملی جو کہ کسی بھی حادثہ کے نتیجہ میں ایک عمومی  ردعمل ہوتا ہے لیکن میں باوجود اپنی علمی کمیابی کہ اس پر تھوڑی بات کرنا چاہتا ہوں -پہلی بات یہ سیلاب اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریاں کا ذمہ دار اپنے گناہوں یا اس میں بہہ جانے والے لوگوں کو نہ دیں اس سب کی ذمہ داری حکومت پاکستان، صوبائی اور وفاقی پلاننگ اور ڈازسٹر مینجمنٹ کے ادارے پر آتی ہے، کس نے کہاں کیا تعمیر کیا اور کس نے کہاں سے بند توڑا ، گلیشیر پگھل گیا یا کلاوڈ برسٹ ہوا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جب آپ نے لوگوں کو اس طرح کے حالات کے لیے تیار ہی نہیں کیا اور نہ اس حساب سے پلاننگ کی۔ -سب تباہ کاریوں کی جڑ معاشی پلاننگ ہے، جو چند دولت مند خاندان ہیں ساری پلاننگ روڈ اور انفراسٹراکچر سب ان کو آسانی دینے کے لیے بنایا جاتا ہے جب کہ ان کے پاس سیلاب کی صورت میں فوری نقل مکانی اور متبادل رہائش جیسے وسائل پہلے سے موجود ہوتے ہیں  -ہمارے سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ کا تعلق ایسے پیشوں سے ہوتا ہے جو سیلاب کے بعد ایک ایک سال تک دوبارہ چلائے نہیں جا سکتے جیسا ...