سیلاب سے متعلق بہت سی سیاسی اور جذباتی باتیں سوشل میڈیا پر سننے اور دیکھنے کو ملی جو کہ کسی بھی حادثہ کے نتیجہ میں ایک عمومی ردعمل ہوتا ہے لیکن میں باوجود اپنی علمی کمیابی کہ اس پر تھوڑی بات کرنا چاہتا ہوں
-پہلی بات یہ سیلاب اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریاں کا ذمہ دار اپنے گناہوں یا اس میں بہہ جانے والے لوگوں کو نہ دیں اس سب کی ذمہ داری حکومت پاکستان، صوبائی اور وفاقی پلاننگ اور ڈازسٹر مینجمنٹ کے ادارے پر آتی ہے، کس نے کہاں کیا تعمیر کیا اور کس نے کہاں سے بند توڑا ، گلیشیر پگھل گیا یا کلاوڈ برسٹ ہوا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جب آپ نے لوگوں کو اس طرح کے حالات کے لیے تیار ہی نہیں کیا اور نہ اس حساب سے پلاننگ کی۔
-سب تباہ کاریوں کی جڑ معاشی پلاننگ ہے، جو چند دولت مند خاندان ہیں ساری پلاننگ روڈ اور انفراسٹراکچر سب ان کو آسانی دینے کے لیے بنایا جاتا ہے جب کہ ان کے پاس سیلاب کی صورت میں فوری نقل مکانی اور متبادل رہائش جیسے وسائل پہلے سے موجود ہوتے ہیں
-ہمارے سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ کا تعلق ایسے پیشوں سے ہوتا ہے جو سیلاب کے بعد ایک ایک سال تک دوبارہ چلائے نہیں جا سکتے جیسا کہ زراعت اور مویشی بانی، اور ان کی سیلاب کے بعد آباد کاری جو سب سے توجہ کا حامل مرحلہ ہے اس میں انکو ایسے متبادل پیشہ جات جو سیلاب سے کم متاثر ہوں کے لیے وسائل نہیں دئیے جاتے
-ڈیموں، فلڈ وال، کنال سسٹم سے سیلاب کے زور کو کم کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی سیلاب کا سد باب نہیں کیونکہ جب تک آپ اس نہایت غریب اور وسائل سے ناپید طبقہ کو پلاننگ کی سب سے پہلی ترجیح نہیں بناتے یہ لوگ اسی طرح بہتے رہیں گے اور آپ ان کے لیے چندہ جمع کرتے رہیں گے
-کیا صرف پاکستان میں سیلاب آتے ہیں؟ نہیں دوسرے ملکوں یہاں تک کہ ہمارے ہمسائیہ انڈیا ، چین اور بنگلا دیش میں ہر سال سیلاب آتا ہے اور بہت سے کامیاب ماڈل ہمارے سامنے ہیں جن میں ریاست اڈیسہ میں کمیونٹی لیول پر کئی انٹرونشنز سے سیلاب کے زور اور متوقع اموات کو کم کیا گیا ہم ان سے سیکھ سکتے ہیں
-چندہ، چیرٹی، فلاحی تنظمیں کبھی بھی ملک، حکومت اور وفاقی اداروں کا خلا نہیں پر کر سکتیں ، اس لیے اپنی تنقید کا رخ سیاسی جماعتوں اور فلاحی اداروں کی بجائے صوبائی او وفاقی اداروں کی طرف کریں اور انکو حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کریں
شکریہ
شاہد عمران
طالب علم ڈازسٹر مینجمنٹ، فلڈ اینڈ ارتھ کوئیک
Comments
Post a Comment