اسرائیل کی حماس سے کوئی لڑائی نہیں اسرائیل کی لڑائی ایک
آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے ہے، جنگ بندی کے اعلان کے باوجود معصوم جانوں کو
درندگی سے قتل کرنے والی یہ امریکہ نواز تسلطی قوم اب تک 549 بچوں سمیت2048 افراد
کو شہد کر چکی ہے، ہم بہت زیادہ تاریخی مباحثوں میں الجھنے کی بجائے اگر پچھلے چند
سالوں کے واقعات پر نظر ڈالیں تو ہمیں اسرائیل اور فلسطینی ریاست کے قیام کی اس
لڑائی میں عرب لیگ کی کم ہوتی حمایت واضح پتہ لگے گئی،
فلسطین کی رایاست کا قیام
سب سے پہلے تو اسرائیل کے لیے ہی کبھی بھی قابل قبول نہیں رہا کیونکہ یہ
صہیونی ریاست کے خواب کو چکنا چور کر دے گا اور فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز قبضے
کی کوششوں کو بھی سبوتاژ کرے گا لیکن اس سارے واقعات میں عرب اور مسلم ممالک کا
کردار بھی اپنے مفادات کے گر دگھومتا ہے۔
کلونیل راج میں قابض ملک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مقامی لوگوں
کو جتنا کمزور رکھ سکتا ہو وہ رکھتا ہے یہی پالیسی اسرائیل کی فلسطین بارے
ہے،اسرائیل فلسطینوں کی زمین پر قبضہ کرنا، ان کی سرحدوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا،
غزہ کو جیل جیسی شکل دیکر فلسطینیوں کو اس
میں قید کرنا اور ان پر اپنے ہتھیار آزمانا چاہتا ہے اور ایک آزاد فلسطینی ریاست اسکے
ان معقاصد کے لیے تباہ کن ہو گی اسی وجہ سے نیتن یاہو نے ہر دفعہ ایک آزاد فلسطینی
ریاست کے قیام کو ہر بار مسترد کیا ہے، اسی وجہ سے یتزیک رابن کو قتل کیا گیاکہ اس
نے ایک مخصوص حد میں فلسطینوں کی آزاد ریاست بنانے کی تجویز دی تھی،
1993 کےاوسلو اعلان کے تین سال میں ، جس کے مطابق فریقین
فلسطینی علاقوں میں آزاد حکومت پر رضا مند ہوئے، اسرائیلی وزیر خارجہ نے اسرائیلوں
کو حکم دیا کہ جتنی زمین پر قبضہ کر سکتے ہو کر لو تاکہ کسی ممکنہ فلسطینی ریاست
کا سائز کم سے کم ہو جسے وہ آسانی سے بعد میں دبا سکیں،
سال 2000 میں غزہ کی سمندری حدود میں 4۔1 ٹریلین کیوبک میٹر
گیس کے ذخائر کی دریافت نے فلسطین کو اور زیادہ مشکل میں ڈال دیا کیونکہ اس سے
فلسطین میں معاشی بہتری آسکتی تھی جو کہ قابض اسرائیل کے لیے کسی طور بھی قابل
قبول نہیں اس لیے صہیونی قوم نے سمندرکی
حدود طرف سے بھی غزہ کو سیل کر دیا،
2002 میں سعودی عریبہ نے بھی ایک امن کا منصوبہ پیش کیا جس
کے مطابق اگر اسرائیل اور امریکہ1967 والی سرحدوں (جو کہ اصل فلسطین کا 22 فیصد
بنتا ہے) پر ایک فلسطینی آزاد ریاست کی حمایت کریں تو عرب لیگ اسرائیل کے ساتھ
اپنے سفارتی تعلقات بحال کر لے گی، اس کی امریکہ نے برپور حمایت کی اور پہلی دفعہ
امریکی صدو جارج بش نے اس کی حمایت میں بیان دیا۔
یہ منصوبہ امریکہ اور سعودیہ دونوں کے لیے اس لیے قابل قبول
تھا تا کہ وہ اسرائیل کی ایک مظبوط ریاست قائم کرنے کا جواز پیدا کر سکیں جو ان کے
مشترکہ دشمن ایران کے خلاف استعمال ہو سکے، لیکن اسرائیل نے اسے بھی مکمل طور پر
مسترد کر دیا
2003 میں دوبارہ سعودی پلان کی طرح کا منصوبہ امریکہ، یورپ،
روس اور اقوام متحدہ نے تیار کیا جس کو اسرائیل نے سب کے سامنے قبول بھی کر لیا
لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے ایسی شرائط رکھیں جو اس کے آزاد مملکت کے تصور کو ہی
ختم کرتی تھیں جس پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے نیتن یاہو سے ملاقاتیں جاری
رکھیں۔ 2013 کے آخری ایسے سیشن میں جو
جولائی میں شروع ہوا حیران کن طور پر فلسطینی حکام جو کہ اپنا 78 فیصد علاقہ کھو
چکے تھے انہوں نے 1967 کے 22 فیصد والے مطالبے کو بھی چھوڑنے پر رضا مندی ظاہر کر
دی لیکن تاریخ دان ایوی شلیم کے مطابق جان کیری کے ساتھ بات چیت کے نو ماہ کے اندر
نیتن یاہو نے ایک بھی تعمیری فارمولا نہیں دیا جو قابل عمل ہو، جس پر جان کیری کو
بیان دینا پڑا کہ یہ معاملہ فریقین کو آپس میں ہی حل کرنا چاہئے،
اسرائیل نے مزاکرات میں زیادہ اعتراض دو باتوں پر اٹھایا
ایک فلسطین کو ہتھیاروں سے پاک کیا جائے دوسرا بات چیت کے لیے متحد قیادت سامنے
آئے اس موضوع پر ٹریبون میں عزیر یونس کے کالم میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ2006 کے
الیکش کے نتیجہ میں حماس اور الفتح کے اشتراک سے بننے والی حکومت پر اسرائیل،
امریکہ سمیت تمام عربوں کی بھی گہری نظر تھی، امریکہ سمیت عرب ممالک نے بھی اس کی
مخالفت کر دی جبکہ دونوں پارٹیوں نے 86 فیصد ووٹ حاصل کیے لیکن امریکہ کی حمایت 2
فیصد ووٹ حاصل کرنے والےسلام فیاد کے ساتھ تھی، اس پر بھی حماس اور الفتح نے لچک
کا مظاہرہ کرتے ہیں ٹیکنو کریٹس کی حکومت بنا دی جس میں حماس کا ایک بھی ممبر شامل
نہیں تھا تاکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے لیے حمایت اکٹھی کی جا سکے لیکن تین
اسرائیلی فوجیوں کے اغوا نے صورتحال کو مزید پثیدہ کر دیا جس پر اسرائیل نے سینکڑوں
فلسطینیوں کا خون بہایا جب دفاع میں حماس کی جانب سے راکٹ فائر کیے گئے تو معاملہ
اور خراب ہوگیا،جس پر اسرائیل نے روایتی درندگی کا ثبوت دیتے ہوئے شیر خوار بچوں،
معمر بوڑھوں اور عورتوں سمیت دو ہزار سے زیادہ افراد کو شہید کر دیا لیکن اس سارے
معاملے میں مسلم دنیا خاص طور پر ماضی کے حمایتی سعودی عرب اور مصر پر سکوت طاری
رہا، انہوں نے اسرائیل پر ذرہ برابر بھی دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کی،
عرب سپرنگ کے نتیجے میں مصر سمیت بہت سے اسلامی ممالک میں
جابر حکمرانوں کے تاج چھین لیے گئے مصر میں مرسی کی جمہوری حکومت قائم ہوگئی جس کو
امریکہ اور یورپ سمیت عرب ممالک میں بھی نا پسند کیا گیا سعودی عرب کو بھی خطرہ لا
حق ہو گیا کہ اخوان مسلم کی اکثریت والی باغی ہوا کہیں اس کی بادشاہت کو بھی ختم
نہ کر دے ، مصر میں محمد مرسی کو معزول اور گرفتار کیے جانے کی بھی حمایت کی تاکہ
اخوان مسلم کی اس تنظیم کی قوت کو کم کیا
جا سکے، بعد ازاں السیسی کے چارج سنبھالنے میں بھی سعودیہ کی مکمل حمایت تھی، اور
امارات نے بھی اس اخوان مسلم پر پابندی عائد کر کے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا
اور اس کے اثاثے بھی منجمد کر دئیے جس سے تنظیم مشرق وسطی میں کمزور ہو گئی،اخوان
مسلم کی بچی اور حمایت یافتہ شکل حماس رہ گئی جس کو کچلنے کے لیے مصر کی فوجی
حکومت نے غزہ کے لیے سرحد کو بند کر دیا اور خوراک کی سپلائی جو غزہ میں پھنسے
لوگوں کی لائف لائن تھی منقطع کر دی۔ مصری میڈیا نے بھی حماس کے خلاف محاذ جنگ
کھول دیا اور اس پر خطے کو ناپائیدار کرنے کا الزام لگایا اسرائیل شائد ایسا ملک
ہو جیسے خطے کے تمام ملک نا پسند کرتے ہوں لیکن ان کو عرب ممالک کو فوری خطرہ
اخوان مسلم سے تھا اس لیے انہوں نے اسرائیل کے ہر اقدام پر چپ سادھ لی، ان اقدامات
کو سراہتے ہوئے اسرائیل نے بھی غزہ کی سرحد پر سولہ ہزار اضافی فوج تعینات کر دی
سعودی عرب اور مصر اس کی قوت کو ختم کرنے کے لیے کسی بھی حد
تک جانے کو تیار ہوگئے چاہے اس کے لیے اپنے مسلمان بھائیوں کی قربانی کو نہ دینی
پڑے،قطر جو کہ اخوان مسلم کی پشت پناہی
کرتا تھا وہ بھی خطے میں اکیلا ہونے کی وجہ سے خاموش ہے اور ایران اور حزب اللہ
اپنی ساری قوتیں شام میں سنی انتہا پسندوں کے خلاف استعمال کر رہے ہیں ، اسرائیل
کے پاس اس سے بہتر موقع کوئی نہیں تھا کہ وہ کسی بھی بین العقوامی مزاحمت کے بغیر
حماس اور فلسطینیوں کا قتل عام کر سکے اس نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور غزہ پر
بمباری شروع کر دی
ماضی میں ایسی اسرائیلی جارحییت پر شاہ فیصل اور انور سادات
نے تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پابندی عائد کر دی جس سے نہ صرف
اسرائیل بلکہ اس کو فنڈ کرنے والے امریکہ اور برطانیہ پر بھی دباؤ پڑا کہ معاملے
کو حل کرنا چاہئیے، لیکن اس دفعہ اپنی
حکومتوں کو بچانے کے لیے جن کو حماس سے براہ راست کوئی خطرہ بھی نہیں ان ممالک نے
ظالمانہ قتل و غارت پر چپ سادھ رکھی ہے اور غزہ کو دنیا کو سب سے بڑا قید خانہ
بنانے، اور انسانی ہمدردی کی امداد کو روکنے میں مکمل مدد کی ہے۔
Comments
Post a Comment