Skip to main content

ماحولیاتی تبدیلیاں اور ترقی پذیر ممالک (محمد شاہد عمران)

ماحولیاتی تبدیلیوں کی حالیہ صورت حال سے دنیا کے تمام ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے اور تقریبآ تمام ممالک ہی اس کے حل کے لیے کوششوں کو تیز کرنے پر زور دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی عملی طور پر کسی موثر اقدام سے بھی گریزاں ہیں ان تبدیلیوں کے اثرات ترقی پذیر ممالک میں خطرناک حد تک محسوس کیے جا سکتے ہیں باوجودیکہ یہ ممالک اس کی سب سے کم وجہ بنتے ہیں۔ عالمی قوتوں اور ترقی یافتہ اقوام کو نہ صرف ان تبدیلیوں کے مضر اثرات کو پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیئے بلکہ ان سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فنی اور مالی امداد بھی کرنی چاہیئے۔
 صنعتی ترقی اور نت نئی ٹیکنالوجی کتنی ہی ضروری سہی لیکن یہ اس صورت میں قابل قبول نہیں کہ زمین انسانوں کے رہنے کہ قابل ہی نہ رہے۔پچھلے دنوں جاپان کے شہر یوکوہاما میں دنیا کے سائنسدان ماحولیاتی تبدیلی کے ممکنہ خطرات کو جانچنے کے لیے جمع ہوئے۔جس میں سمندر کے لیول کے سال 2100  تک تین فٹ تک اضافے کا خد شہ ظاہر کیا گیا جو کہ زمینی درجہ حرارت میں حالیہ اضافے کی بدولت ہوگا اس کا مطلب ترقی پذیر ممالک کے غریب عوام کے لیے اس کے سوا کچھ نہیں ہوگا، کہ ایک سائکلون یا دوسرا طوفان ان کی برسوں سے تعمیر شدہ زندگی کو تباہ کر دیگا۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ تیل کے جلنے،اور صعنتوں  سے ایسی گیسوں کا اخراج ہو رہا ہے جو درجہ حرارت میں اضافہ کا باعث بنتی ہیں  امریکہ اور چین  سب سے زیادہ تیل استعمال کرنے والے ممالک ہیں اس کا مطلب یہ کہ درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بننے میں بھی ان کا سب سے بڑا حصہ ہے۔کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کوغریب ملکوں کی فضا آلودہ کرنے پر انکی مالی اور فنی امداد کی صورت مداواہ کرنا چاہیئے ۔جبکہ  کچھ کہتےہیں کہ ان ترقی یافتہ ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں کھولنی چاہیئے۔اگر اس طرح کا انصاف کیا جائے کی ان مہاجرین کو ان ملکوں جو سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیں پیدا کرتے ہیں میں داخلے کی اجازت ملے تو سب سے زیادہ مہاجر امریکہ اور 
چائنہ میں ہجرت کر کے جائیں گے۔


ہماری زمین ، ہمارا مستقبل ہمارے اپنے ہاتھ میں

انسانی مداخلت سے جو نتائج سامنے آسکتے انکا اندازہ لگانا نا ممکن ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ انکی وجہ سے جزیروں 
پر موجود ممالک جیسے مالدیپ ،فجی، کری باتی، اور بنگلا دیش جیسے ملک اپنا بہت سا حصہ سمندر کے ہاتھوں گنوا لیں گے ۔ کیونکہ درجہ حرارت میں اضافے سے سطح سمندر بھی مسلسل بلند ہو رہی ہے۔ بنگلا دیش جو کہ صرف 3۔0 فیصد گرین ہاؤس گیسیں پیدا کرتا ہے ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ یہاں کی اکثریت پہلے ہی  غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اوپر سے آئے دن کی غیر متوقع بارشیں اور سائکلون  ان مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں جو ان کی زندگی کا حصہ ہیں۔
ترقی پذیر ممالک عالمی ماحولیاتی تبدیلی میں سب سے کم حصہ ڈالتے ہیں حتی کہ کاربن ڈائی آکسائید کے کل اخراج میں ترقی پذیر ممالک کا حصہ صرف 10 فیصد ہے لیکن متاثر ہونے کی شرح ترقی یافتہ ممالک سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ترقی پذیر ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان کی صورتحال بھی ان سے  مختلف نہیں، عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بننے والے ممالک میں پاکستان 135 ویں نمبر پر ہے اور دوسروں کی نسبت کاربن ڈائی آکسائید کی بہت کم مقدار چھوڑتا ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔
عالمی بنک کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی پاکستان کو ان ماحولیاتی خطروں سے آگاہ کیا گیا ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو بھگتنے پڑ سکتے ہیں ان میں سمندر کی سطح آب میں اضافہ، سیلاب، گلیئشیرز کا پھگلنا، درجہ حرارت میں اضافہ اور غیر متوقع قحط ایسے خطرات ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے قابل غور بات یہ ہے کہ پاکستان ان خطرات سے کئی سالوں سے نبرد آزما ہے اس لیے ان عالمی تنظیموں کو چاہئیے کہ ان خطرات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان ملکوں کو ممکنہ ماہرانہ اور فنی امداد بھی فراہم کی جائے جو کہ ان خطرات سے نپٹنے کا مناسب لائحہ عمل بنانے میں مدد گار ثابت ہو۔
 یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دنیا کے بڑے شہروں کی آلودگی کی وجہ سے ان ملکوں میں پائے جانے والے دیہاتی علاقے اور چھوٹے شہر سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں پشاور، کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں 
کی آلودگی کا خمیازہ جعفرآباد، نوشہرو اور نارووال جیسے چھوٹے شہروں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔
  
  2007 کی ایک اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس صدی کے آخر تک عالمی درجہ حرارت میں چھ سے زیادہ ڈگری تک اضافہ ہو سکتا ہے اس حد تک اضافے کے کیا نتائج سامنے آسکتے ؟ اس سے نہ صرف فصلوں کی پیداوار متاثر ہوگی جو غذائی قلت پیدا کرے گی بلکہ  دوسری طرف بڑے شہروں میں اس درجہ حرارت میں زندگی گزارنا بھی نا قابل برداشت ہو جائے گا۔ اسی طرح ماحولیاتی تبدیلی کی بین الحکومتی تنظیم نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بھی درجہ حرارت اور سطح سمندر کے ترقی پذیر ممالک پر اثرات کا ذکر اس سے ملتے جلتے الفاظ میں کیا ہے، رپورٹ کے مطابق مشرقی اور مغربی افریقہ میں بارشوں میں اضافی ہو گا جبکہ برما ، بنگلا دیش اور انڈیا سمندری طوفانوں کی لپیٹ میں ہوں گے۔ دوسری طرف اس رپورٹ مین بتایا گیا ہے کہ ساؤتھ چائنہ اور آبنائے تھائی لینڈ زیادہ بارش اور طوفانوں کی لپیٹ میں ہوں گے
اگرچہ درجہ حرارت اور دوسری ماحولیاتی تبدیلی دنیا کے تمام افراد کے لیے برابر خطرناک ہے لیکن چونکہ ترقی پذیر ممالک دنیا کا 80 فیصد ہیں اس لیے اس خطرے کا 80 فیصد بھی ان ممالک کو ہی برداشت کرنا پڑے گا حالانکہ ان ممالک کے شہریوں کا کاربن فٹ پرنٹس میں سب سے کم حصہ ہے ترقی پزیر ملکوں کے لیے سب سے بڑی خطرے کی بات ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں کا معطل ہونا ہے کیونکہ سیلاب، سائکلون اور درجہ حرارت میں اضافےکی وجہ سے زرعی پیداوار اور سیاحت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔آبدی میں اضافے اور آفات کی نا مناسب منصوبہ بندی  معاشی حالات کو مزید خراب کر رہی ہے۔.
گلوبل وارمنگ کی جو قیمت دنیا کو ادا کرنی پڑ رہی اسکا اندازہ لگانا اس لیے بھی ناممکن ہے کیونکہ کوئی بھی اس میں دوسرے ممکنہ عوامل کو نظر انداز نہیں کر سکتا عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال ماحولیاتی تبدیلی کے اضافی اثرات کی وجہ سے ڈیڑھ لاکھ اموات ہوتی ہیں غریب ممالک اور بہت سی وجوہات کی بدولت  بھی ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہوتے ہیں مثال کے طور پر کچے گھر سیلاب میں جلدی بہہ جاتے ہیں اس کے علاوہ صفائی اور صحت کی سہولتوں میں کمی کی وجہ سے وہاں بیماریاں اور وبا پھیلنے کے بھی زیادہ امکان ہوتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کی بدولت 2030 تک صرف افریقہ میں 9 کروڑ عوام ملیریا جیسی مہلک بیماری کا نشانہ بن سکتے ہیں ملیریا پہلے ہی وہاں پر بے قابو ہے ڈینگی اور ڈائریا جیسی بیماریاں بھی اپنا دائرہ کار بڑھا رہی ہیں اور خدشہ ہے کہ 2070 تک دنیا کی 60 فیصد آبادی ان بیماریوں کی لپیٹ میں ہوگی
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے زمین کا آبی چکر بھی تیز ہو گیا ہے  جس سے غیر متوقع قحط اور بارشوں میں اضافہ ہوا ہے پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ملک اسکا سب سے زیادہ شکار ہو رہے۔ پاکستان میں تھر، چولستان اور بنگلہ دیش خاص طور پہ آبنائے بنگال کے دیہاتی علاقوں کی موجودہ صورتحال  ان اثرات کا ثبوت ہیں ۔ایک حالیہ اندازے کے مطابق  اگر کاربن کا ماحول میں اخراج اسی طرح رہا تو 2080 تک زرعی پیداوار 16 فیصد تک کم ہو جائے گی جو کہ موجودہ ترقی پزیر ممالک میں 21 فیصد کمی تک جا سکتی ہے۔ یہ اندازہ اگر چہ بہت دور کے زمانے کا سہی لیکن موجودہ ماحولیاتی تبدیلیوں اور آبادی میں حد درجہ اضافے کی بدولت ہم یہ صورتحال 2080 سے کہیں پہلے دیکھ لیں گے۔
ترقی پذیر ممالک بھی اس ماحولیاتی تبدیلی میں اپنا حصہ درختوں کو کاٹ کر اور وسائل کو نا مناسب طریقے سے استعمال کر کے ڈال رہے ہیں۔  مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان متاثرہ ملکوں کی سیاسی قیادت ان خطرات کے بارے بلکل غیر سنجیدہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں جو ان ممالک کو ماحول دشمن اقدامات کی بدولت پیش آرہے ہیں۔
دنیا کے تمام ملکوں کو سمجھ ینا چاہئیے کہ مریخ پر رہنے کے خواب کتنے ہی سہانے سہی لیکن وہ فقط خواب ہی ہیں ہمیں اسی زمیں پر رہنا ہے۔  اعدادو شمار کتنے ہی ڈراؤنے سہی لیکن ابھی بھی آنے والی نسلوں کو رہنے کے قابل زمین دینے کی امید زندہ ہے اور ہم اسے زندہ رکھ سکتے ہیں ۔لیکن اس کے لیے اپنے اندر احساس پیدا کرنا ہو گا موجودہ اور آنے والے خطرات کا ادراک کرنا ہو گا۔ درختوں کی زیادہ سے زیادہ شجر کاری کر کے ہم عالمی درجہ حرارت میں 5 سے 7 ڈگری کمی لا سکتے ہیں ہم سب جانتے ہیں کی درجہ حرارت میں اضافہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائید کی وجہ سے ہے اور اسے صرف درخت ہی کم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض ملکوں کی طرف سے کاربن ٹیکس لگانے کی تجویز بھی قابل تقلیدو تعریف ہے۔
 اس کے علاوہ ترقی پذیر ممالک باہمی اشتراک سے بھی بہت سے معجزات دکھا سکتے ہیں اور گلوبل وارمنگ میں حد درجہ کمی لا سکتے ہیں پاکستان اور بھارت کو اس سلسلے میں ایک نمونے کے طور پر دیکھا جا سکتا دونوں ملک میٹرولوجی اور ماحولیاتی سائنسز میں ایک دوسرے سے بہت تعاون کر رہے ہیں اور ایک دوسرے ساتھ وقت پر اعدادو شمار کا تبادلہ بھی کرتے ہیں،ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اس لیے تمام ممالک کو مشترکہ طور پر اس سلسلے میں جدوجہد کرنی چاہئیے۔ کیونکہ ایک ملک کا درجہ حرارت یا سائکلون بغیر ویزے کے دوسرے ممالک میں تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

سیلاب ، طاقت اور تباہی

سیلاب سے متعلق بہت سی سیاسی اور جذباتی باتیں سوشل میڈیا پر سننے اور دیکھنے کو ملی جو کہ کسی بھی حادثہ کے نتیجہ میں ایک عمومی  ردعمل ہوتا ہے لیکن میں باوجود اپنی علمی کمیابی کہ اس پر تھوڑی بات کرنا چاہتا ہوں -پہلی بات یہ سیلاب اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریاں کا ذمہ دار اپنے گناہوں یا اس میں بہہ جانے والے لوگوں کو نہ دیں اس سب کی ذمہ داری حکومت پاکستان، صوبائی اور وفاقی پلاننگ اور ڈازسٹر مینجمنٹ کے ادارے پر آتی ہے، کس نے کہاں کیا تعمیر کیا اور کس نے کہاں سے بند توڑا ، گلیشیر پگھل گیا یا کلاوڈ برسٹ ہوا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جب آپ نے لوگوں کو اس طرح کے حالات کے لیے تیار ہی نہیں کیا اور نہ اس حساب سے پلاننگ کی۔ -سب تباہ کاریوں کی جڑ معاشی پلاننگ ہے، جو چند دولت مند خاندان ہیں ساری پلاننگ روڈ اور انفراسٹراکچر سب ان کو آسانی دینے کے لیے بنایا جاتا ہے جب کہ ان کے پاس سیلاب کی صورت میں فوری نقل مکانی اور متبادل رہائش جیسے وسائل پہلے سے موجود ہوتے ہیں  -ہمارے سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ کا تعلق ایسے پیشوں سے ہوتا ہے جو سیلاب کے بعد ایک ایک سال تک دوبارہ چلائے نہیں جا سکتے جیسا ...

Hey AI, Write my research article !

     In today's world, research is the basis of progress, innovation, and intellectual growth. Universities, as the bastions of knowledge and inquiry, have long been the driving force behind groundbreaking discoveries and advancements across various disciplines. However, with the rise of artificial intelligence (AI), new ethical challenges have emerged that demand careful scrutiny and responsible action.      University research has evolved dramatically over the past few decades. The traditional model of solitary scholars working in isolation has given way to a more collaborative and interdisciplinary approach. Researchers now work across boundaries, leveraging diverse expertise to tackle complex problems that span multiple fields.  The complexity of modern problems, such as climate change, disease outbreaks like COVID, and technological advancements, requires expertise from various disciplines. Universities have responded by fostering interdisciplinar...

A case study of methods to minimize Research Bias

A case study of methods to minimize Research Bias Muhammad Shahid Imran (Research Scholar, Mphil) University of Central Punjab dj.shaa@yahoo.com Dr Zakria Zakar, Professor University of the Punjab mzzakir@yahoo.com Introduction The term bias in research is by no means straightforward in meaning. Usually it refers to systematic error or deviation from actual results due to different intervening and mediating variables mostly affecting the objectivity of research. It can also be conscious or unconscious impact of researcher’s personal likeness or failure to interpret results which may lead to erroneous conclusions.   Researchers see bias as big obstacle in achieving credibility and accuracy in research. As influence of personal or ideological beliefs on their methods to achieve a certain results can endanger principle of impartiality. (Research Integrity, Scientific Misconduct, 2014) While conducting an empirical social science research, a researcher ma...